EN हिंदी
میری موت کے مسیحا! | شیح شیری
meri maut ke masiha!

نظم

میری موت کے مسیحا!

اعجاز احمد اعجاز

;

میری موت کے مسیحا!
تین بر اعظموں پہ تم نے میرا پیچھا کیا ہے

موسم بدلتے رہے تقدیر کی طرح
میں شہر شہر پھرا دھوپ کی طرح

میں نے خاموشیاں لفظوں کے سپرد کیں
زبان کے لفظ بدلے

مگر تم اک تاریک سرنگ کی طرح سایہ سایہ
میرے شعور میں اترتے چلے گئے ہو

میرے ذہن میرے جسم میرے قلب کے معکوس رخ!
میری تحریروں کے آسیب!

تم میری تنہائی ہو میرے وجود کی انتہا اور شکست
چاہے ہوئے بدن تمہاری آغوش میں راکھ ہو گئے ہیں

ابدی خاموش حریف!
تم کائنات کے تمام نور کے ساتھ شطرنج کھیلتے رہے ہو

میں نے تمہاری قوتوں کی ہمہ گیر گنجلک بساط پہ
خانہ بہ خانہ۔۔۔

عشق اور لفظوں کی صلیبیں بچھائیں:
تم ہواؤں کی مثال میرے آس پاس برستے رہے

تم ہر شام پھولوں پہ یلغار کرتے پانیوں پہ چلتے رہے ہو
یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے لفظ

ریت کے چہرے پہ کھنچے ہوئے بے ثبات نقش ہیں
میں نے ہر ابتدا ہر انتہا کا اثبات کیا ہے

فاصلوں کی طرح تم سب کچھ نکلتے چلے گئے ہو
ہمارا جھگڑا تا عمر جاری رہے گا

میرے سانسوں کے ساتھی اور دشمن:
میرے ہم شکل:

مقدر کی بند کتاب:
میں نے تمہارے راز جاننے چاہے

کلنڈر کی تاریخوں میں تمہیں پڑھنا چاہا
پلکوں کے درمیان تمہارے لباس کے نامعلوم تار بچھائے

s
یاد رکھو!

ہر روشنی نے تمہیں اپنے فانی شعلوں میں لپیٹنا چاہا
مگر وقت کی کلید!

تم نے کنجیوں کا گچھا نہ جانے کس مٹی میں دفن کر دیا ہے
تم جھوٹے لفظوں کی طرح

میری انگلیوں میں سے پھسلتے چلے گئے ہو