میری ایک بری عادت تھی
تو میری عادت کے ہاتھوں کیسی زچ اور کتنی دق تھی
جب حیرت کی انگلی تھامے تیرے ساتھ چلا کرتا تھا
اک شیریں مسکان کی بیلیں میرے تن بوٹے کے اوپر استحقاق سے چڑھتی تھیں
اور اک لمس کا گاتا پانی نس نس دیپ جلاتا تھا
لمس کے جگنو اور مسکان کی تتلی میرے کھلونے تھے
ان دونوں کی دوری سہنا جینے جیسا مشکل تھا
ان کو پلو میں باندھے تو جب بھی دور کہیں جاتی تھی
میں وسواس کی ڈور سے لپٹا پیچھے پیچھے آ جاتا تھا
سب لوگوں سے، ہر رستے سے تیرا پتہ پوچھا کرتا تھا
اب حیرت کی انگلی تھامے تو اک ایسے دیس گئی ہے
جس کے سب بازار اور گلیاں، سارے گھر اور سب چوبارے
گہری دھند میں سربستہ ہیں، گزرے کل سے پیوستہ ہیں
میں اس دھند کے چوراہے پر نم آنکھوں کو پونچھ رہا ہوں
روتے روتے سوچ رہا ہوں
کس کو روکوں کس سے پوچھوں کیا میری ماں کو دیکھا ہے؟
اس رستے سے ہو کے گئی تھی
اپنی ایک بری عادت سے کیسا زچ اور کتنا دق ہوں
نظم
میری ایک بری عادت تھی
بلال احمد