EN हिंदी
میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں | شیح شیری
mere liye kya hai kuchh bhi nahin

نظم

میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں

نشور واحدی

;

یہ گاؤں کا منظر سناٹا اور شام کی دھندلی تاریکی
اک شام بہت رنگین مگر مفلس کی نگاہوں میں پھیکی

دھرتی پہ یہ پانی سونے کا آکاش پہ نہریں چاندی کی
یہ چاند یہ تارے یہ دریا میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں

یہ شہر کی چلتی سڑکوں پر ہر سمت دکانیں نورانی
بجلی میں بھی جلتا ہو جیسے افلاس کے پتے کا پانی

چیزوں کی گرانی میں شامل غربت کے لہو کی ارزانی
یہ ساز یہ سامان عشرت میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں

راتوں کے اندھیرے میں جگ مگ جگ مگ یہ فضا میخوانوں کی
میزوں پہ نظارے مستی کے بہکی ہوئی لے دیوانوں کی

بوتل کی نوائے کل کل میں ہلکی سی خنک پیمانوں کی
یہ شیشہ یہ ساقی یہ صہبا میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں

سڑکوں پہ حسینوں کا تانتا جادو کا پرا چلتا پھرتا
ساڑی کی لپیٹوں سے جن کی چھلکے ہے جوانی کی صہبا

مستی کے قدم سنبھلے سنبھلے آنچل کا سرا ڈھلکا ڈھلکا
یہ حسن و جوانی رنگ و ادا میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں

آنکھوں پہ مری احساس ہے کیا سبزوں پہ اگر ہے برنائی
کیوں پوچھنے جاؤں کیاری میں پھولوں کا مزاج رعنائی

کیا کام ہے مجھ کو گلشن سے کلیاں ہو کھلی یا مرجھائی
یہ پھول یہ شبنم شیر و فضا میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں

کالج کی یہ تعمیر خنداں ممنون غموں لام نہیں
اس میں کسی مفلس کے گھر کے غمگین پسر کا نام نہیں

سامان تجارت ہے یہ بھی سامان مفاد عام نہیں
یہ علم یہ حکمت ہوش ربا میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں

بے جان ہو جب نقش ہستی تصویر تمنا کیا بولے
تاراج کے خونی پنجے میں تہذیب کی مینا کیا بولے

چیلوں کے نجاست کھانے میں بیچارہ پپیہا کیا بولے
یہ نغمہ یہ شعر و ساز و نوا میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں