EN हिंदी
میرے خاموش خدا | شیح شیری
mere KHamosh KHuda

نظم

میرے خاموش خدا

بشریٰ اعجاز

;

مرے خاموش خدا
ساتھ مرے بول ذرا

مرے اندر تو اتر
میری تمنا میں دھڑک

میں جو آنکھوں میں
تھکن رکھ کے سفر کرتی ہوں

مری راتوں کو مرے خواب نہ ڈس جائیں کہیں
میرے اندر وہ خیالات نہ بس جائیں کہیں

جن کو ممنوعہ زمینوں کی حکایات کہا جاتا ہے
تیرگی پر جسے لکھی ہوئی وہ رات کہا جاتا ہے

جس کی قسمت میں کبھی کوئی ستارہ نہ دیا ہوتا ہے
جس کے ماتھے پہ سویرے کا

کوئی بوسہ کبھی ثبت نہیں ہو پاتا
وہ جو محروم تمنا ہے دعا کا ڈر ہے

مرے خاموش خدا!
وقت بے وقت مری آنکھوں میں

تپتے پانی کی یہ بھڑکن کیوں ہے
میرے ماتھے پہ تمنا کا کوئی رنگ نہیں

پھر مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
الجھی ہوئی دنیا کی کہانی کیوں ہے

وہ جو اطراف مرے
مجھ کو نظر آتی نہیں

میرے دل میں وہ اداسی کی
روانی کیوں ہے

کون ہے وہ جو مجھے
''کوک'' کا ان دیکھا بلاوا دے کر

''ہوک'' کی اوٹ میں چھپ جاتا ہے
جو مجھے میرے تصور کے کسی عکس میں

روشن کر کے
آئینہ خانے میں پھر آگ لگا جاتا ہے

جس کی آنکھوں میں
مرے خواب کے سارے منظر

اپنے ہونے کی گواہی میں جیے جاتے ہیں
وہ گواہی کہ صحیفوں میں

جسے میں نے تلاوت تو کیا ہے لیکن
وہ گواہی میرے ہونے کی گواہی تو نہیں

میں کہاں ہوں
مرا معلوم کہاں ہے

کس نے
مرے اندر مرے موجود کو نابود کیا

کون ہے
جو مری رگ رگ میں جیے جاتا ہے

مری دنیا سے مجھے ملک بدر رکھتا ہے