چلو نہ آج تمہیں ایک کہانی سناتی ہوں
کہانی کے ساتھ کچھ اور بھی بتاتی ہوں
پیار کرنے سے زیادہ اسے نبھانا سکھاتی ہوں
ساتھ ہی اپنی زندگی بتاتی ہوں
ماں پاپا بہت خوش تھے میرے آنے پر
نہ جانے کیوں پھر دادہ دادی کا چہرہ نہیں کھلا تھا
جب میرے حق میں پاپا نے انہیں سمجھایا
تبھی تو مجھے میرا ہیرو ملا تھا
ماں کا دودھ پاپا کا پیار
یہی تو تھا میرا سنسار
جب بھی چلنے کی کوشش کرتی
انہی کی انگلی پکڑتی
ڈر لگنے پر پھر انہی سے جا چپکتی
ہنسنا بھی انہی سے تھا ہر بار
اور بس یہی تھا میرا سنسار
تھوڑی بڑی ہوئی تو اسکول جیسا کچھ ملا
مجھ جیسے بہت تھے وہاں وہی کپڑے وہی جوتے
کچھ سچے کچھ جھوٹھے
انہیں میں سے کچھ بنے دوست یار
اور بڑا ہو گیا میرا سنسار
یوں ہی میں بڑھتی گئی
سپنوں کی سیڑھیاں چڑھتی گئی
ہیرو میرے سپر ہیرو بن گئے
باقی سب تو پھر زیرو لگنے لگ گئے
ماں سے بھی تھا میرا پیار
اور بس انہیں دونوں سے تھا میرا سنسار
پھر ایک گھڑی ایسی آئی سب چیزیں ہو گئی پرائی
انہیں ماں باپ نے تو پھر کر دی میری پروائی
ایک راج کمار آیہ تھا گھوڑی چڑھ
امیدیں اچھلنے لگیں تھی بڑھ چڑھ
اچھاؤں کو ملا تھا امیدوں کا سمندر
نئی زندگی کی خوشی تھی دل کے اندر
پیا سنگ نئے گھر جانا تھا
شادی تو بس ایک بہانہ تھا
جنموں کے لئے ملنے والا پیا کا پیار تھا
بننے والا اب وہی میرا سنسار تھا
سسرال تھا اب میرا نیا گھر گھر جیسا نہیں تھا یہاں کچھ پر
ماں باپ بھائی نہیں تھے ادھر تھے تو بس ساس سسر دیور
پیار دلار جو گھر پے ملتا تھا وو اب گم تھا
ایسا لگا مانو شادی کا لڈو بس ایک بھرم تھا
پیا اب پتی ہو گیا
اپنے کام میں اتنا کھو گیا
کے شادی کے پہلے کا سب موہ گیا
لگا جیسے دل کہہ گیا
کے اب تو بس بچے کا انتظار رہ گیا
پھر ایک دن وو انتظار رکا
مجھے بھی نئی زندگی کا پتہ لگا
مجھ سے زیادہ وو خوش ہوئے آخر یہ ان کا انش تھا
بڑھانے والا ان کا یہ ونش تھا
میری پوچھ ہونے لگی بار بار
بدلنے والا جو تھا سب کا سنسار
آ گئی پھر وو ایک گھڑی
پتہ لگا وو بھی تھی ایک لڑکی
اتنا ہی تو پتہ تھا بس
پھر نہ جانے کیوں نئی تھے سب خوش
وو پوچھ اچانک تانے بن گئی
املی کی پھلی نیم کی چھڑی بن گئی
کوئی چاہتا نہیں تھا مجھ سے پھر ایک میں آؤں
سب کی ضد تھی میں گربھ پات کراؤں
کیوں آخر کیوں
پھر ایک لڑکی سے چھننے والا اوس کا گھر بار تھا
کیا یہی میرے سپنو کا سنسار تھا
پھر اچانک ایک ہیرو لوٹ آیہ
سب کو منایا سب کو سمجھایا
اوس نے پتا ہونے کا فرض نبھایا
اب وو ماں باپ سنگ کھیل کرتی کرتی ہے
دوستوں سنگ اچھلا کودا کرتی ہے
ماں سے لوریاں روز سنتی ہے
آج کہانی سننے لگی ہیں
لاگے اوس کے سنگ ساری دنیا جگی ہے
سنتی ہے کہانی یہ رات کی رانی
اور سوچتی ہے
جانے کس دن وو سورج نکلے گا
جانے کس دن یہ آسمان کھلے گا
جب انسان سے انسان کا ہوگا سچا میل
جب ٹوٹیں گے سب موہ کے دھاگے
اور بند ہوگا انسانی دنیا میں یہ کٹھ پتلی کا کھیل
جب مار کی جگہ لے گا پیار
اور سدھرے گا میرے سپنوں کا سنسار
اور سدھرے گا میرے سپنوں کا سنسار
نظم
میرا سنسار
انکتا گرگ