کبھی جو روح پہ ہوتی ہے بے حسی طاری
دماغ کیف سے ہوتا ہے یک قلم عاری
پکارتا ہے جہان فریب کار مجھے
سمن کدہ نظر آتا ہے خارزار مجھے
میں پھول چھوڑ کے کانٹے پسند کرتا ہوں
خذف اٹھا کے تجوری میں بند کرتا ہوں
بلند بال جو ہوتا نہیں ہے مرغ خیال
قوائے فکر پہ چھاتا ہے میرے اضمحلال
کبھی جو چہرۂ امید زرد ہوتا ہے
کبھی جو شعلہ مرے دل کا زرد ہوتا ہے
خودی و خود نگری مجھ پہ چھائی جاتی ہے
درشت خوئی مرے دل میں راہ پاتی ہے
مزاج عشق میں ہوتی ہے جب نمی پیدا
دل و دماغ میں ہوتی ہے برہمی پیدا
تو میرا ساقی مجھے ہنس کے نرم کرتا ہے
نظر ملا کے مرے دل کو گرم کرتا ہے
نظم
میراساقی
عروج قادری