EN हिंदी
میرا راج کمار | شیح شیری
mera raj-kumar

نظم

میرا راج کمار

انکتا گرگ

;

بہت خوش تھی میں آج
نہ ہوتی میں کاش

کسی کی ضرور نظر لگی ہوگی
کسی کو تو میں خوش بری لگی ہوں گی

کسی نے تو میرے آنسو مانگے ہوں گے
کچھ تو مجھ سے وہ چاہتے ہوں گے

کہ نظر سے اندھی لڑکی کو
خوشیاں نظر نہ آئیں

کہ پھر سے کوئی طوفان اس پر
غموں کا پہاڑ لائے

اور دیکھو تو یہ نظر بھی کیا خوب کھیلی
مجھ سے میری ہر ہنسی لے لی

زندگی چھین مجھے راہ پر لا دیا
اے نظر یہ تو نے کیا کیا

مجھے ایسا پتی دے دیا
جانتے ہیں میں بہت خوش تھی آج

یہ دن پہلے آیہ ہوتا کاش
میں سنور سج رہی تھی

دل میں شہنائی بج رہی تھی
کوئی تو راج کمار تھا

جو مجھے پانے کو بے قرار تھا
مجھ سے پیار بہت وہ کرتا تھا

مجھے کھونے سے بھی ڈرتا تھا
اس لیے تو

ہاں روئی تھی میں
پر وداعی پر بھی خوش تھی

دل میں امیدیں کچھ تھی
چہرہ ان کا دیکھنا میرا سپنا تھا

وہ چہرہ جو اب سے میرا اپنا تھا
وہ چہرہ جسے محسوس کیا کروں گی

نہ جانا وو چہرہ جس سے میں روز ڈرا کروں گی
کیونکہ وہ چہرہ کوئی تو راج کمار تھا

مجھے پانے کو بے قرار تھا
وداعی کے باد کی رات آئی تھی

میں پہلی بار پیار سے کچھ یوں شرمائی تھی
آنکھیں نہ سہی پر دل میرے پاس تھا

اس دل میں بسا اب کوئی خاص تھا
میں کان لگا کر سنتی رہی

بن آنکھیں بھی راہیں تکتی رہی
اسی سوچ میں رینا بیتتی گئی

میری خوشیاں ہر سوچ سے جیتتی گئی
آخر پیار میں نے پایہ تھا

یہ پیار مجھے جنت میں لایہ تھا
بیتی رات کا پھر انتظار رکا

ایک دم سے میرے کمرے کا دروازہ کھلا
اسی بیچ میں کچھ آہٹ ہوئی

جس سے خوشی نہیں مجھے گھبراہٹ ہوئی
کون ہے میرا برسو پرانا سوال تھا

تمہارا پتی اس جواب کا خیال تھا
ایسا لگا مانو یہ اکیلے نہ تھے

ساتھ میں ان کے کچھ مہماں تھے
شاید چھیڑنے آئے ہوں گے

مجھ تک ان کو لائے ہوں گے
پر نہیں یہ آوازیں قریب تھی

بے حد قریب
جیسے وہ کمرے میں موجود ہوں

جیسے خطرے میں میرا وجود ہو
میں اٹھنے والی تھی

کچھ پوچھنے والی تھی
کے تبھی ایک ہاتھ رکا میرے کندھوں پر

پھسلنے لگا میرے گالوں پر میرے بالوں پر
مجھے اچھا نہ لگا

یہ پیار سچا نہ لگا
کچھ تو گڑبڑ چل رہی تھی

میری روح جل رہی تھی
کچھ کہنا چاہتی تھی

کچھ جاننا چاہتی تھی
کچھ پوچھنا چاہتی تھی

میں سہی تھی وہ اکیلے نہ تھے
پر ساتھ میں ان کے مہماں نہ تھے

وہ حیوان تھے یہ حیوان تھے
مجھے پرت در پرت وہ کھولتے گئے

میں چلاتی رہی وہ مجھے نوچتے گئے
باری باری سے میری جسم شکار ہوا

میرا دل بھروسہ سب تار تار ہوا
اس کی ہنسی مجھے چبھ رہی تھی

انگلیاں وہ مجھے دکھی رہی تھی
میں دیکھ نہیں سکتی تھی

پر ان دیکھی کیسے کرتی
میں نے خواب بنے تھے

کچھ لمحہ چنے تھے
ان کے ساتھ بتانے کو

انہیں اپنا بنانے کو
کیونکہ

یہ وہ راج کمار تھا
جو مجھے پانے کو بے قرار تھا

مجھ سے پیار بہت کرتا تھا
مجھے کھونے سے بھی ڈرتا تھا

اس لئے تو
میری عزت کو تار تار کیا

مجھے توڑ دیا مجھے مار دیا
جانے من گنتی مت روکنا گنتی رہنا

جانے من کیوں مزہ تو آ رہا ہے نہ
ایسے ایک دلہن کی تعریف ہو رہی تھی

ایسے ایک دلہن کی قسمت سو رہی تھی
ایسے ایک رات شانت رو رہی تھی

ایسے میری سہاگ رات ہو رہی تھی
میں تھم سے گر گئی

لگا انہیں میں مر گئی
سب جانے لگے

تو میرے پتی میرے پاس آنے لگے
مجھ سے پیار جو کرتے تھے

مجھے کھونے سے جو ڈرتے تھے
مجھے پیار سے آ کر وہ کوسنے لگے

بے جان شریر کو پھر وہ نوچنے لگے
شراب کے نشے میں وہیں پڑے ڈولنے لگے

ہاتھ مروڑ کر
خراب رات کو بولنے لگے

پھر اچانک ایک درد نے جیسے طماچہ مارا
نہ جانے کہاں سے ہمت کا سیلاب آیہ

ہمت جو دل ٹوٹنے کی تھی
ہمت جو خواب روٹھنے کی تھی

ہمت جو بھاگ پھوٹنے کی تھی
ہمت جس کی ضرورت نہ جانے کتنی تھی

میں نے جھٹ سے دھکا دیا
ان کی حالت کو پکا کیا

میں کمرے میں گھومنے لگی
شاید کچھ ڈھونڈھنے لگی

ادھر ادھر ہاتھ پھیرنے لگی
پہلی بار میں آنکھ مچولی کھیلنے لگی

کہیں تو کچھ مل جائے
جس سے میری جان بچ پائے

میں بھاگ سکو یہاں سے بچ کر کیسے
پر سبق ان کو سکھاؤں کیسے

تبھی کچھ ہاتھ میں پینی چیز لگی
شعلوں کو جیسے ماچس ملی

میں نے وہی اٹھا کر دے مارا
ایک دو تین

جانے من گنتی مت روکنا گنتے رہنا
جانے من کیوں مزہ تو آ رہا ہے نہ

بالکل
میں گنتی نہیں روکوں گی گنتی رہوں گی

تیرے اندر سے خون بن کر گرتی رہوں گی
ان کی چیکھ سکون دے رہی تھی

ہر آہ دوبارہ گننے کا جنون دے رہی تھی
پر مجھے نکلنا تھا

سو بچ کر وہاں سے بھاگ نکلی
جب آئی ہوں یہاں تو بس ایک چیکھ نکلی

آنکھوں کے بن میں نے دنیا دیکھ لی
اپنے ہی ہاتھوں سے میں نے جنگ جیت لی

اب جا کر کہیں نئی دنیا دیکھوں گی
پھر کہیں کے لوگوں سے کچھ نیا دیکھوں گی

تو اس کے لیے نکلتی ہوں
ذرا پیروں میں دم بھرتی ہوں

پر اس سے پہلے
جب اتنا سنا تو نام بھی سنتے جاؤ

میرا کام بھی تو سنتے جاؤ
میں حاشیہ اندھی ہوں

کھدا کی وہ بندی ہوں
جو اندھوں کو لڑنا سکھاتی ہوں

جب کوئی چیز ڈراتی ہے
ان پر کوئی مصیبت آتی ہے

میں حاشیہ اندھی ہوں