EN हिंदी
میرا دوست ابو الہول | شیح شیری
mera dost abul-haul

نظم

میرا دوست ابو الہول

اختر الایمان

;

دھواں دھار تقریر جس نے ابھی کی تھی وہ آدمی ہے
جو لفظوں کے پل باندھتا ہے

ابھرتے ہوئے نوجوانوں کو وعدوں کی افیون دے کر
اسی پل پہ لاتا ہے اور غرق کر کے

پلٹ جاتا ہے حسب دستور آرام گہ کو
یہ دنیا تو ان شعلہ سامان لوگوں نے آپس میں تقسیم کر لی

جو ہتھیار کی شکل میں رنج و غم ڈھالتے ہیں
یا گولہ بارود کے کارخانوں کے مالک ہیں

یا پھر ثنا خواں ہیں ان کے
ہمارے لیے صرف نعرے بچے ہیں

صنعتی دور کے کج کلاہوں کی داد و دہش روح پرور ہو یا جان لیوا
مگر زندہ باد، آفریں، مرحبا، کے سوا کچھ نہیں پاس اپنے

یہ سب جانتا ہے ہماری شجاعت کی پرواز کیا ہے
ہماری جواں مردی اک صوبہ جاتی تعصب سے

یا فرقہ واری فسادات سے آگے کچھ بھی نہیں ہے
فتوحات اسکندری ہم نے تختی پہ لکھ کر مٹا دی ہیں کب کی

ہمارے بعد زمیں کے تلے سو رہے ہیں
عجائب گھروں میں لٹکتی ہیں تلواریں ان کی

اور ان کے زریں لبادوں کو گھن کھا گیا ہے
ذرہ بکتروں پر کلونس آ گئی ہے

یہ سب جانتا ہے ہماری تگ و تاز کیا ہے
ہمارے شکم گر ہمارے سروں پہ نہ ہوتے

اور چہروں میں اعضائے جنسی
تو ہم اچھے انسان بنتے

ہمارے گھروں کے کم و بیش سب عقبی دروازے پیہم کھلے ہیں
ہمارے لہو میں ہرے لال پیلے بہت سارے پرچم کھلے ہیں

کہیں سے مگر حق کی آواز آتی نہیں ہے
ہماری زباں دل کی ساتھی نہیں ہے

ہمارے لیے کھوکھلا لفظ جمہوریت ہے، تقاریر ہیں لیڈروں کی
ہمارے لیے روز ناموں کے صفحات ہیں، اشتہارات ہیں نیم جنسی

ہمارے لیے دیوتاؤں کے بت ہیں، خدا کے فرامین ہیں اور عقبیٰ
جو بد رنگ ہے حال کی طرح اور کورے لٹھے کی بو سے بھری ہے

ہمارے لیے صرف روٹی کی جد و جہد
عورتوں کے برہنہ بدن کی تمنا سے آگے کہیں کچھ نہیں ہے

ہماری رگوں میں جو تیزاب ہے اس کی شدت کبھی کم نہ ہوگی!