آدمیوں کے اس میلے میں
وقت کی انگلی پکڑے پکڑے
جانے کب سے گھوم رہا ہوں
کبھی کبھی جی میں آتا ہے
اس میلے کو چھوڑ کے میں بھی
ان ٹیڑھی راہوں پر جاؤں
دور سے جو سیدھی لگتی ہیں
لیکن جانے کیوں اک سایہ
رستہ روک کے کہہ دیتا ہے
وقت کے ساتھ نہ چلنے والے
مرتے دم تک پچھتاتے ہیں
آدمیوں کے میلے میں پھر
واپس کبھی نہیں آتے ہیں
نظم
میلہ
آفتاب شمسی