سارے دن کے میل کو
جسم سے اتارنا مشکل لگتا ہے
سر کو دن بھر کی دھول سے
فارغ کرنا
اور پھر گردن کے کالے دائرے کو
ہلکا کرنا
صابن کے بلبلوں سے
پھر آہستہ آہستہ ان گولائیوں کی طرف
بڑھنا
جن پر میل کبھی نہیں چڑھتا
ذرا سی ترچھی
ایک طرف کو جھکی ہوئی
سدا کی چمکی چمکائی
انہیں میں اب نہیں دھوتی
پھر ابھرے ہوئے پیٹ پر
برسوں کا پسینہ
جمے ہوئے چیونگ گم کی طرح
کبھی نہیں اترتا
صابن کے جھاگ کے بلبلے تیزی سے
اس پر پھوٹتے رہتے ہیں
اور پھر بے ہنگم کولھوں کی
باری آتی ہے
کبھی جب میں چلتی تھی
تو سرپھرے پلٹ پلٹ کر
ان کے اترنے چڑھنے کو
گھورتے رہتے تھے
ناف سے لے کر ناخنوں تک
صابن بے ڈول جھاگ بناتا ہے
جھاگ اور پوروں کی آنکھ مچولی
جو میل پسینہ بن کر بہہ جاتی ہے
اب جسم سے میل اتارنا
مشکل لگتا ہے
نظم
میل اتارنا مشکل لگتا ہے
عذرا عباس