EN हिंदी
محور | شیح شیری
mehwar

نظم

محور

احمد ہمیش

;

ہماری آنکھوں میں جلنے والے نقوش باقی ہیں
کان موسم کی گرم آہٹ سے چونک اٹھتے ہیں

بھیگی مٹی کا لمس فن کو نکھار دیتا ہے
نرسری کے پرانے گملوں میں پرورش کے تمام آداب

خوب سجتے ہیں
ہوا ابھی تک ہمارے پیڑوں کی سرد شاخوں میں سرسراتی ہے

ہونٹ ہلتے ہیں
اور گائک ہمارے وجدان کی شت اور اتھاہ لہروں میں بہہ نکلتا ہے

ہماری معصوم آتماؤں کی جوت دھرتی پہ جاگتی ہے
ہماری محور پہ گھومتی ہے

کیا ہوا جو ہماری دنیا میں دن کی نفرت
یا شب کا دھوکا بھی حادثہ ہے ہمارے الفاظ کا

نہ کوئی تاریخ ساعتوں کی
نہ کوئی ورثہ نہ کوئی تہذیب

سب غلط ہے
مفاہمت کے تمام بندھن بکھر چکے ہیں

ہماری آنکھیں ہی دیکھتی ہیں
اور کوئی آواز ہماری تاریخ کی حکایت سے ماورا ہے

دماغ پتھر اگا رہے ہیں