EN हिंदी
مہمانداری | شیح شیری
mehman-dari

نظم

مہمانداری

علی منظور حیدرآبادی

;

پھیلی ہے فضاؤں میں خوشی میری نظر کی
ہنستی نظر آتی ہیں فضائیں مرے گھر کی

دل شاد مرے اہل و عیال آج بہت ہیں
مصروف ہیں وہ بھی نہیں مصروف فقط میں

رکھی ہے سلیقے سے ہر اک کام کی چیز آج
مہمان مرے گھر میں ہیں کچھ میرے عزیز آج

شادی کا مکاں گھر مرا معلوم نہ ہو کیوں
مجمع ہو جب اتنا تو بھلا دھوم نہ ہو کیوں

بھائی بھی ہیں بہنوئی بھی بھاوج بھی بہن بھی
بیٹھا ہے بھتیجا بھی بھتیجے کی دلہن بھی

بچی ادھر اک بیٹھ کے تکتی ہے دلہن کو
کچھ طفل ستاتے ہیں ادھر اپنی بہن کو

بچوں پہ جھلک خاص ہے تنویر سحر کی
اٹھ بیٹھے ہیں سب سنتے ہی آواز گجر کی

دل کش یہ فضا صبح کی یہ نور کا تڑکا
بلبل کی طرح بول رہا ہے کوئی لڑکا

بے وجہ کوئی رونے پہ آمادہ ہوا ہے
حیرت سے نئے گر کو کوئی دیکھ رہا ہے

بیٹھا ہے یہ چپ دوڑ رہا ہے وہ خوشی سے
کھانے کے لیے ضد کوئی کرتا ہے ابھی سے

کرنا ہے جو سامان ضیافت کو فراہم
آ آ کے مرے کان میں کچھ کہتی ہیں بیگم

ہونا ہے جو خوبی سے ضیافت کا سرانجام
لڑکی کے ذریعے سے بھی پہنچاتی ہیں پیغام

آتی بھی ہیں جاتی بھی ہیں بیگم سوئے مطبخ
ماماؤں میں بے وقت جہاں ہوتی ہے چخ چخ

راحت نہ ملے کیوں انہیں ہلکی تگ و دو میں
سائے کی طرح ساتھ ہے لڑکی بھی جلو میں

ننھی ابھی اٹھی نہیں پہلو سے پھپھی کے
لیتی ہیں وہ رہ رہ کے مزے اس کی ہنسی کے

لڑکے مرے خوش ہو کے ادھر دیکھ رہے ہیں
اخلاص و محبت سے مخاطب ہوں جدھر میں

مجمع یہ عزیزوں کا محبت کی یہ باتیں
ان پیار کی باتوں میں نہ چوٹیں ہیں نہ گھاتیں

انوار تبسم کے تکلم سے ہیں پیدا
ضو صبح کی اس منظر دل کش پہ ہے شیدا

باتوں کا ابھی تھا طربی سلسلہ جاری
نرگس نے کہا آ کے ہے تیار نہاری