EN हिंदी
مہمان | شیح شیری
mehman

نظم

مہمان

اسرار الحق مجاز

;

آج کی رات اور باقی ہے
کل تو جانا ہی ہے سفر پہ مجھے

زندگی منتظر ہے منہ پھاڑے
زندگی خاک و خون میں لتھڑی

آنکھ میں شعلہ ہائے تند لیے
دو گھڑی خود کو شادماں کر لیں

آج کی رات اور باقی ہے
چلنے ہی کو ہے اک سموم ابھی

رقص فرما ہے روح بربادی
بربریت کے کاروانوں سے

زلزلے میں ہے سینۂ گیتی
ذوق پنہاں کو کامراں کر لیں

آج کی رات اور باقی ہے
ایک پیمانہ مے سر جوش

لطف گفتار گرمئی آغوش
بوسے اس درجہ آتشیں بوسے

پھونک ڈالیں جو میری کشت ہوش
روح یخ بستہ ہے تپاں کر لیں

آج کی رات اور باقی ہے
ایک دو اور ساغر سرشار

پھر تو ہونا ہی ہے مجھے ہشیار
چھیڑنا ہی ہے ساز زیست مجھے

آگ برسائیں گے لب گفتار
کچھ طبیعت تو ہم رواں کر لیں

آج کی رات اور باقی ہے
پھر کہاں یہ حسیں سہانی رات

یہ فراغت یہ کیف کے لمحات
کچھ تو آسودگی ذوق نہاں

کچھ تو تسکین شورش جذبات
آج کی رات جاوداں کر لیں

آج کی رات اور آج کی رات