مزدور ہیں ہم، مزدور ہیں ہم، مجبور تھے ہم، مجبور ہیں ہم
انسانیت کے سینے میں رستا ہوا اک ناسور ہیں ہم
دولت کی آنکھوں کا سرمہ بنتا ہے ہماری ہڈی سے
مندر کے دیئے بھی جلتے ہیں مزدور کی پگھلی چربی سے
ہم سے بازار کی رونق ہے، ہم سے چہروں کی لالی ہے
جلتا ہے ہمارے دل کا دیا دنیا کی سبھا اجیالی ہے
دولت کی سیوا کرتے ہیں ٹھکرائے ہوئے ہم دولت کے
مزدور ہیں ہم، مزدور ہیں ہم سوتیلے بیٹے قسمت کے
سونے کی چٹائی تک بھی نہیں، ہم ذات کے اتنے ہیٹے ہیں
یہ سیجوں پر سونے والے شاید بھگوان کے بیٹے ہیں
ہم میں نہیں کوئی تبدیلی جاڑے کی پالی راتوں میں
بیساکھ کے تپتے موسم میں، ساون کی بھری برساتوں میں
کپڑے کی ضرورت ہی کیا ہے مزدوروں کو، حیوانوں کو
کیا بحث ہے، سردی گرمی سے لوہے کے بنے انسانوں کو
ہونے دو چراغاں محلوں میں، کیا ہم کو اگر دیوالی ہے
مزدور ہیں ہم، مزدور ہیں ہم، مزدور کی دنیا کالی ہے
مزدور کے بچے تکتے ہیں جب حسرت سے دوکانوں کو
مزدور کا دل دیتا ہے دعا دیوتاؤں کو، بھگوانوں کو
کھایا مٹی کے برتن میں، سوئے تو بچھونے کو ترسے
مختاروں پر تنقیدیں ہیں، بیچارگیاں مجبوروں کی
سوکھا چہرہ دہقانوں کا، زخمی پیٹھیں مزدوروں کی
وہ بھوکوں کے ان داتا ہیں، حق ان کا ہے بیداد کریں
ہم کس دروازے پر جائیں کس سے جا کر فریاد کریں
بازار تمدن بھی ان کا دنیائے سیاست بھی ان کی
مذہب کا ارادہ بھی ان کا، دنیائے سیاست بھی ان کی
پابند ہمیں کرنے کے لیے سو راہیں نکالی جاتی ہیں
قانون بنائے جاتے ہیں، زنجیریں ڈھالی جاتی ہیں
پھر بھی آغاز کی شوخی میں انجام دکھائی دیتا ہے
ہم چپ ہیں لیکن فطرت کا انصاف دہائی دیتا ہے
اٹھ بیٹھے انگڑائی لے کر جو غفلت کا متوالا ہے
آکاش کے تیور کہتے ہیں، طوفان پھر آنے والا ہے
اک ابر کا ٹکڑا آتا ہے، اک ابر کا ٹکڑا جاتا ہے
یا خواب پریشاں دنیا کا بالائے فضا منڈلاتا ہے
چلتی ہے زمانہ میں آندھی شاعر کے تند خیالوں کی
اس تیز ہوا میں خیر نہیں ہے اونچی پگڑی والوں کی
احساس خودی مظلوموں کا اب چونک کے کروٹ لیتا ہے
جو وقت کہ آنے والا ہے دل اس کی آہٹ لیتا ہے
طوفاں کی لہریں جاگ اٹھیں سو کر اپنے گہوارے سے
کچھ تنکے شوخی کرتے ہیں سیلاب کے سرکش دھارے سے
مندیل سروں سے گرتی ہے اور پاؤں سے روندی جاتی ہے
سینہ میں گھٹاؤں کی بجلی، بے چین ہے کوندی جاتی ہے
منظر کی کدورت دھو دے گی دھرتی کی پیاس بجھائے گی
موسم کے اشارے کہتے ہیں یہ بدلی کچھ برسائے گی
یہ ابر جو گھر کر آتا ہے، گر آج نہیں کل برسے گا
سب کھیت ہرے ہو جائیں گے جب ٹوٹ کے بادل برسے گا
نظم
مزدور کی بانسری
جمیلؔ مظہری