اپنی سوئی ہوئی دنیا کو جگا لوں تو چلوں
اپنے غم خانے میں اک دھوم مچا لوں تو چلوں
اور اک جام مئے تلخ چڑھا لوں تو چلوں
ابھی چلتا ہوں ذرا خود کو سنبھالوں تو چلوں
جانے کب پی تھی ابھی تک ہے مئے غم کا خمار
دھندلا دھندلا نظر آتا ہے جہان بیدار
آندھیاں چلتی ہیں، دنیا ہوئی جاتی ہے غبار
آنکھ تو مل لوں ذرا ہوش میں آ لوں تو چلوں
وہ مرا سحر وہ اعجاز کہاں ہے لانا
میری کھوئی ہوئی آواز کہاں ہے لانا
مرا ٹوٹا ہوا وہ ساز کہاں ہے لانا
اک ذرا گیت بھی اس ساز پہ گا لوں تو چلوں
میں تھکا ہارا تھا، اتنے میں جو آئے بادل
کسی متوالے نے چپکے سے بڑھا دی بوتل
اف وہ رنگین پر اسرار خیالوں کے محل
ایسے دو چار محل اور بنا لوں تو چلوں
مجھ سے کچھ کہنے کو آئی ہے مرے دل کی جلن
کیا کیا میں نے زمانے میں نہیں جس کا چلن
آنسوؤ تم نے تو بے کار بھگویا دامن
اپنے بھیگے ہوئے دامن کو سکھا لوں تو چلوں
میری آنکھوں میں ابھی تک ہے محبت کا غرور
میرے ہونٹوں کو ابھی تک ہے صداقت کا غرور
میرے ماتھے پہ ابھی تک ہے شرافت کا غرور
ایسے وہموں سے ذرا خود کو نکالوں تو چلوں
نظم
موت
معین احسن جذبی