چہرے روحوں کی بے مائیگی
ذہن کی تیرگی کے سیہ آئنے
سرد آنکھوں کے تاریک روزن میں دبکا ہوا اک خلا
ایک سناٹا ہونٹوں کے بستہ مکاں میں ہے سویا ہوا
روح کو جہد تحصیل زر کھا گئی
ذہن کی روشنی ناامیدی کی ظلمت میں دھندلا گئی
آنکھیں ناکامیوں کے کھنڈر میں مکاں کے تصور سے عاری ہوئیں
ہونٹ کشکول دریوزہ گر بن کے لفظوں کے عصمت کی دوکاں بنے
اور اب کچھ نہیں
اور اب کچھ نہیں
ایک دیوانہ گر خواہش زیست ہے
خال و خط دست و پا
سینہ و سر شکم اور زیر شکم
ایک دیوانہ گر خواہش زیست اعضا میں دوڑی ہوئی
ایک بے معنی بے کار اپاہج ہوس جسم کے تانے بانے کو تھامے ہوئے
صرف اس ایک لمحے کی آمد کا ہے انتظار
جب کہ ذہنوں کے روحوں کے آئنہ
آنکھوں میں دبکا خط
اور ہونٹوں سے لپٹا سکوت
ایک بار خواہش زیست سے کہہ سکیں
زیست ہم پر ہمیشہ ثے الزام ہے
ہم نہ زندہ رہے ہیں کبھی اور نہ زندہ ہیں اب
ایک دیوانہ گر خواہش مرگ ہی تھی ہمارے لئے زندگی
نظم
موت کی جستجو
وحید اختر