EN हिंदी
موت کا گیت | شیح شیری
maut ka git

نظم

موت کا گیت

مخدومؔ محی الدین

;

عرش کی آڑ میں انسان بہت کھیل چکا
خون انسان سے حیوان بہت کھیل چکا

مور بے جاں سے سلیمان بہت کھیل چکا
وقت ہے آؤ دو عالم کو دگرگوں کر دیں

قلب گیتی میں تباہی کے شرارے بھر دیں
ظلمت کفر کو ایمان نہیں کہتے ہیں

سگ خوں خار کو انسان نہیں کہتے ہیں
دشمن جاں کو نگہبان نہیں کہتے ہیں

جاگ اٹھنے کو ہے اب خوں کا تلاطم دیکھو
ملک الموت کے چہرے کا تبسم دیکھو

جان لو قہر کا سیلاب کسے کہتے ہیں
ناگہاں موت کا گرداب کسے کہتے ہیں

قبر کے پہلوؤں کی داب کسے کہتے ہیں
دور نا شاد کو اب شاد کیا جائے گا

روح انساں کو آزاد کیا جائے گا
نالۂ بے اثر اللہ کے بندوں کے لیے

صلۂ دار و رسن حق کے رسولوں کے لیے
قصر شداد کے در بند ہیں بھوکوں کے لیے

پھونک دو قصر کو گر کن کا تماشا ہے یہی
زندگی چھین لو دنیا سے جو دنیا ہے یہی

زلزلوں آؤ دہکتے ہوئے لاؤ آؤ
بجلیو آؤ گرج دار گھٹاؤ آؤ

آندھیو آؤ جہنم کی ہواؤ آؤ
آؤ یہ کرۂ ناپاک بھسم کر ڈالیں

کاسۂ دہر کو معمور کرم کر ڈالیں