EN हिंदी
متاع غیر | شیح شیری
mata-e-ghair

نظم

متاع غیر

حبیب جالب

;

آخر کار یہ ساعت بھی قریب آ پہنچی
تو مری جان کسی اور کی ہو جائے گی

کل تلک میرا مقدر تھی تری زلف کی شام
کیا تغیر ہے کہ تو غیر کی کہلائے گی

میرے غم خانے میں تو اب نہ کبھی آئے گی
تیری سہمی ہوئی معصوم نگاہوں کی زباں

میری محبوب کوئی اجنبی کیا سمجھے گا
کچھ جو سمجھا بھی تو اس عین خوشی کے ہنگام

تیری خاموش نگاہی کو حیا سمجھے گا
تیرے بہتے ہوئے اشکوں کو ادا سمجھے گا

میری دم ساز زمانے سے چلی آتی ہیں
رہن غم وقف الم سادہ دلوں کی آنکھیں

یہ نیا ظلم نہیں پیار کے متوالوں پر
ہم نے دیکھیں یوں ہی نم سادہ دلوں کی آنکھیں

اور رو لیں کوئی دم سادہ دلوں کی آنکھیں