EN हिंदी
مسکن | شیح شیری
maskan

نظم

مسکن

شہناز نبی

;

آ
کہ اس دل میں تیرے لیے ہے بہت سی جگہ

یہ تو دونوں کو معلوم ہے
آرزوؤں کی کثرت سے تنگی کا مارا ہوا

حسرتوں سے پریشان ہے
اس کی بوسیدگی کے گواہ

محبت وفا دشمنی بغض کینہ حسد
یہ جہاں مختصر

اور تو عز و جل
پھر بھی اتنا یقیں کر ہی سکتا ہے تو

یہ وہ گھر ہے کہ جس میں اگر تو براجے
یہ تیرا بنے

اور تب تک رہے گا بسیرا ترا
جب تلک تو اسے

اپنے رہنے کے قابل سمجھتا رہے!