میں مسجد احمریں کے دامن پہ ثبت پتھر
نواح حیرت کدہ طلسمات عافیت تھا
نہ میرا فکر و نظر سے رشتہ نہ میرا ایہام گوئی شیوہ
فقط میں شاہد عبادتوں سے چمکتے لمحوں کی داستاں کا
درون مسجد کھڑے منارے اذان دیتے
تو وادیٔ عشق سے طلوع نماز ہوتی
امام اور مقتدی سفیران اہل ایماں
حضور یابی کی ندرتوں سے کلام کرتے سلام کرتے
میں مسجد احمریں کے دامن پہ ثبت پتھر
گواہ اول گواہ آخر ہوں اس خجل لمحۂ قفس کا
جب آئنوں کی رگوں میں تازہ لہو کی حیرت
کا خوں ہوا تھا
عجب طلوع سحر ہوئی تھی
فلک کی سرخی اتر کے چشم تپاں میں آئی
چہار سمتوں میں خندقیں تھیں
فضا میں رقصاں تھی بوئے وحشت
درون مسجد بھی کلمہ گو تھے
وہ کلمہ گو تھے کہ جن کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا
چہار جانب گھروں میں قیدی تھے
جن کے ہونٹوں سے بد دعائیں پھسل رہی تھیں
میں قلب شہر سلام اندر
نم تبسم سے آشنا تھا مگر یہ دن تھے
خجل فسانوں کی بازیابی کی صورتوں کے
سفیر آتے سفیر جاتے بلکتے بچوں کی آہ و زاری
نحیف لہجوں کی کپکپاہٹ سماعتوں سے الجھ رہی تھی
فضا میں تھا خوف دھند جیسے
درون مسجد وہ اہل منبر وہ اہل جبہ
سفارتوں کی سبیل مخلوط میں الجھ کر
صراط ابیض سے ہٹ گئے تھے
میں ڈر گیا تھا میں مسجد احمریں کے دامن پہ ثبت پتھر
میں ایستادہ ہوں اب بھی لیکن
نہ مسجد احمریں ہے ویسی نہ مقتدی ہیں نہ طفل و مادر
نہ اہل منبر ہیں جن کی تقریر نے فضاؤں کا سانس کھینچا
نہ شورشیں شہر کلمہ گو میں
مگر حقیقت میں کیا ہوا تھا
لہو میں لتھڑی صفوں سے پوچھو
چمن میں مردہ سفارتوں کی شبیہیں دیکھو
میں مسجد احمریں کے دامن پہ ثبت پتھر
کئی زمانوں سے رو رہا ہوں
مجھے بصارت نہیں بصیرت سے دیکھئے گا
نظم
مسجد احمریں
الیاس بابر اعوان