EN हिंदी
مریض محبت | شیح شیری
mariz-e-mohabbat

نظم

مریض محبت

جمیلؔ مظہری

;

اپنے پندار خودی سے منفعل ہوں مظہریؔ
میں ظہور اختلال آب و گل ہوں مظہریؔ

کہ محبت کا مریض مستقل ہوں مظہریؔ
دوستی کیا دشمنی سے بھی محبت میں نے کی

روشنی کیا تیرگی سے بھی محبت میں نے کی
مسکرائی تیرگی مجھ کو محبت ہو گئی

ہنس کے بولی دشمنی مجھ کو محبت ہو گئی
مفلسی و بے نوائی سے محبت میں نے کی

ہر سرور خود نمائی سے محبت میں نے کی
ہر غرور کبریائی سے محبت میں نے کی

بے رخی و کج ادائی سے محبت میں نے کی
تر زباں ہو کر رکھائی سے محبت میں نے کی

تھا رجائی کس قدر میری محبت کا دماغ
اہرمن کے سینۂ تاریک میں دیکھا چراغ

اک ستارستاں نظر آیا اندھیرا داغ داغ
میں نے مکاری و عیاری میں بھی دیکھا خلوص

میں صیادی و جلادی سے بھی برتا خلوص
میں نے قہاری و جباری میں بھی ڈھونڈا خلوص

اپنے اس جذبے کو اک تشدید ایمانی بھی دی
دوستوں کے واسطے ایماں کی قربانی بھی دی

تاکہ پوری ہو محبت کی اک امید فضول
بارہا جھونکا کیا انصاف کی آنکھوں میں دھول

پھر بھی سب کچھ کھو کے سب کچھ دے کے کچھ پایا نہیں
عقل کام آئی نہیں اور عشق راس آیا نہیں

جس کو کہتے ہیں وفا اک سخت بیماری ہے یہ
خودکشی ہو یا نہ ہو لیکن خود آزاری ہے یہ

ناز برداری میں بھی اک بار برداری ہے یہ
میں محبت کی ہوس میں اتنا بے خود ہو گیا

میرے اندر مادہ نفرت کا بالکل سو گیا
اے عزیزو! اس مریض زندگی کا کیا علاج

اس خودی کا کیا علاج اس بے خودی کا کیا علاج
جس کو ہو ناز وفا اس آدمی کا کیا علاج

اجتبیٰؔ سے پوچھتے ہو مظہریؔ کا کیا علاج
سو خلوص بے ریا کا اک خباثت سے علاج

یہ مرض ہے، یہ مرض ہے اس کا نفرت ہے علاج
بس یہی راز شفا ہے، بس یہی راز شفا

بس یہی میری دوا ہے بس یہی میری دوا
کوئی میری روح پر ایسا کرے ظلم شدید

مجھ میں نفرت جی اٹھے صلوٰۃ بر روح یزید