EN हिंदी
مرگ پیچ | شیح شیری
marg-pech

نظم

مرگ پیچ

نصیر احمد ناصر

;

مجھ کو اپنی موت کی دستک نے زندہ کر دیا ہے
دوڑتا پھرتا ہوں

سارے کام نپٹانے کی جلدی ہے
پہاڑوں اور جھیلوں کی خموشی سے

قدیمی گیت سننے ہیں پرانے داستانی بھید لینے ہیں
درختوں سے نموکاری کی بابت پوچھنا ہے

نت نئی شکلیں بناتے بادلوں کو دیکھنا ہے
خوش نوا اچھے پرندوں سے

اڑن پھل کا پتا معلوم کرنا ہے
عروسی بیل کے پھولوں کو چھونا ہے

در و دیوار سے باتیں بھی کرنی ہیں
ابھی کتنے ملاقی منتظر ہیں

ایک لمبی لسٹ ہے آنکھوں میں نادیدہ نظاروں کی
فشار خون بڑھتا جا رہا ہے

اب کسی لمحے رگیں پھٹنے کا خطرہ ہے
مگر مصروف ہوں سب کام نپٹانے کی جلدی ہے

سمندر نے بلایا ہے
جزیرے اور ساحل بھی

کئی قرنوں سے مجھ کو یاد کرتے ہیں
مچھیرے گیت گاتے بستیوں کو لوٹتے

مجھ کو بہت ہی ہانٹ کرتے ہیں
کسی دن جاؤں گا ملنے

خزانوں کو اگلنے کے لیے
بے تاب ہیں رقبے طلسمی سر زمینوں کے

سفر کے راستے معلوم ہیں
نقشے پرانے کاٹھ کے صندوق میں محفوظ ہیں سب

دیو بانی بھی سمجھتا ہوں
مگر مصروف ہوں

بچوں کے کتنے کام باقی ہیں
کتابیں کاپیاں اسکول کے کپڑے نئے بستے

کھلونے بیٹ ریکٹ
اور بہت سی ان کہی چیزیں

خریدوں گا تو خوش ہوں گے
مگر مصروف ہوں سب کام نپٹانے کی جلدی ہے

رگوں میں خون کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے
زندگی پر اک جنون مرگ طاری ہے

بہت مصروف ہوں
سرپٹ لکھے جاتا ہوں نظمیں

مجھ کو اپنی موت کی دستک نے زندہ کر دیا ہے!!