سب دریچے بند ہیں تم کچھ کہو
تم سمجھتے ہو گریباں چاک ہوں
میں تو اندوہ سماعت کے جراثیموں سے
بالکل پاک ہوں
نالۂ بیباک ہوں
سب دریچے بند ہیں تم کچھ کہو
تم سمجھتے ہو کہ بینائی گئی
بجھ گیا ہر روزن دیوار چپ ہے روشنی
نیم وا ہے تیرگی
یہ شگفت غنچہ لب کی صدا
وہ حسیں قوس قزح رنگیں قبا
دھڑکنوں کا سلسلہ
سب دریچے بند ہیں تم کچھ کہو
تم سمجھتے ہو کہ ساری انگلیاں پتھر کی ہیں
کیوں قلم کے خشک ہونٹوں سے
کوئی کاغذ چھوئیں
اسم اعظم کی لکھیں
سب دریچے بند ہیں تم کچھ کہو
تم سمجھتے ہو کہ خوابوں میں خیالوں کو لیے
لڑکھڑائیں گے ہمیشہ وصل کی خواہش میں
یوں ہی بن پیے
اپنے ہونٹوں کو سیے
میں سمجھتا ہوں اے میرے چارہ گر
مرگ گل سے پیشتر
اک سیہ شعلہ سا کرتا ہے طواف بوئے جاں
لیکن اے جان جہاں
چھو انگشت شہادت سے کوئی نوک سناں
میں لکھوں گا تیرے چہرے پر وہ انمٹ داستاں
زندگی سچ بول دے
جو سب دریچے کھول دے
زندگی سچ بول دے
نظم
مرگ گل سے پیشتر
اقبال حیدر