بلا کی پیاس اس کی آنکھ میں ہے
حجاز کی سرزمیں پہ اس سال اس قدر بارشیں ہوئی ہیں کہ خشک تالاب
خون ناحق سے بھر گئے ہیں
لہو کی پیاس اس کی آنکھ میں ہے
نفس میں بارود جس کی قاتل صدا کا شعلہ
قدم قدم تہنیت کے رستے رواں ہوا تو وہ نخل جس کی جڑیں زمینوں کے
درد میں تھیں
جھکا کچھ ایسے کہ جیسے حال رکوع میں ہو
اداس طائر جو شاخ پر تھے
جو گنبدوں کی پناہ میں تھے
جو جالیوں کے طواف میں تھے
ڈرے ہوئے آسمان ہجرت کی ٹہنیوں سے
نشیب میں اس زمین مقتل کو دیکھتے ہیں
جہاں وہ نخل اس طرح گرا ہے کہ جیسے حال سجود میں ہو
اک اور تالاب تازہ بارش سے بھر گیا ہے
نظم
مقتل کی بازدید
اختر حسین جعفری