EN हिंदी
منزل شوق | شیح شیری
manzil-e-shauq

نظم

منزل شوق

انور ندیم

;

پڑھتے پڑھتے تھک جاتا ہوں،
کھڑکی سے کچھ دور گگن کو،

چھو کے واپس آ جاتا ہوں
نظروں کا انداز ہے یارو!

پڑھنے میں جی لگ جاتا ہے!
یوں بھی جینا آ جاتا ہے!

سامنے میرے اک کمرہ ہے
کمرے کی چھوٹی سی چھت پر،

ایک بہت معمولی لڑکا،
جب دیکھو ٹہلا کرتا ہے!

عمر اگر پوچھو، تو ایسی
جس میں سارے من کا زور،

یہ گہرا ساگر پی جائے،
ٹھوکر دے پربت کو مار،

کیسی اڑچن کیسی مشکل،
اپنی مرضی اپنی منزل،

لیکن وہ معمولی لڑکا،
نالی اس کو پی سکتی ہے،

تنکا اس کو ریزہ کر دے!
اس کی پیاسی پیاسی آنکھیں،

اس کے سوکھے سوکھے ہونٹ
سپنوں سے بیگانہ جیسے،

گیتوں سے ان جانے سے،
بھوک نے اپنی لوری دی ہے،

چلتے پھرتے سو جاتا ہے!
صبح سویرے ،شام کی بیلا،

نگری میں جب لگا ہو میلہ،
ایک اکیلی چھت پر تنہا،

ایک وہی لڑکا پھرتا ہے!
پورب جانب نیچے کوئی،

چھوٹا سا اک آنگن ہوگا،
شام کو آنگن سجتا ہوگا،

میزوں پر کیا کچھ نہ ہوگا،
آلو، پوری پھلکی چھولے،

برفی، کھویا لڈو، پیڑے،
اور مزے کے کھانے ہوں گے،

بجلی، خوشبو، بادل، موجیں،
انسانی پیکر میں ڈھل کر،

ہنستے گاتے موج اڑاتے،
میزوں پر گر جاتے ہوں گے!

کیوں کہ میں نے اکثر دیکھا،
اپنی چھت کی آڑ میں رہ کر

چپکے چپکے ،پہروں پہروں،