ہم اپنے منظر سے بچھڑے
آنکھوں میں اس کا عکس لئے بھٹک رہے ہیں
کوئی نئی رت ہمیں پناہ دینے لگتی ہے
تو اچانک۔۔۔
بے دعا لمحوں کو کچھ نیا سوجھتا ہے
اور سارا منظر بدل جاتا ہے
جہاں پر اسرار آہٹیں
ہمیں خوف کے جنگل میں چھوڑ آتی ہیں
بے منظری روز ہم سے شکوہ کرتی ہے
صبح جاگتے ہیں
تو ہمارے چہروں پر شام ہونے لگتی ہے
اجنبیت کی دھند ہمارا سایہ چھین چکی ہے
ہماری اپنی ذات میں فاصلے اتنے گہرے ہو گئے
کہ ہم خود اپنی ہی دسترس سے باہر ہو چکے
ہم اس منظر میں نہیں دفنائے جا سکتے
جس میں ہم نے جنم لیا تھا
ہم ایک مدت سے
آنکھوں کی گٹھڑی میں اپنے خواب باندھے
وقت کی دہلیز پر کھڑے چیخ رہے ہیں
لیکن ہماری آواز کسی اور منظر میں رہ گئی ہے
بے صوت پکار پر آسمان اشک بار ہوتا ہے
تو ہماری فصلوں میں بھوک چپکے سے گھس جاتی ہے
دشت نے ہمارے شاداب جسموں سے پانی نچوڑ کر
ان میں پیاس بھر دی ہے
ادراک کی سرحدوں کے اس پار
اپنے گمشدہ منظر کو ہم نے کبھی نہیں کھوجا
ہمیں خبر ہے۔۔۔
ہم سب نے مل کر اپنا منظر خود گنوایا ہے
اور اب ہم۔۔۔
اپنے قحط زدہ بدن میں چھپ کر بیٹھ گئے ہیں

نظم
منظر سے بچھڑنے کا کرب
منیر احمد فردوس