کبھی ہاتھوں سے اڑاتا ہوں، کبھی مارتا ہوں
وقت بے رنگ سے کیڑے کی طرح
دست و بازو پہ مرے
رینگتا رہتا ہے دن بھر
رات بوسیدہ رضائی کی طرح اوڑھے ہوئے
اور ناخونوں سے تاروں کو کھرچتے رہنا
چاند بھی ایک پھپھوندی لگی روٹی کی طرح سر پہ ٹنگا رہتا ہے
کیسے کاٹے کوئی بیماری میں بیکاری کے دن؟
الٹی لٹکی ہوئی بوتل سے اترتی ہوئی پھیکی بوندیں۔۔۔
دست و بازو میں مرے
رینگتی رہتی ہیں دن بھر
ایک بے رنگ سے کیڑے کی طرح!
نظم
منظر! نرسنگ ہوم
گلزار