میں نے اس کو دیکھا ہے
اجلی اجلی سڑکوں پر اک گرد بھری حیرانی میں
پھیلتی بھیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں
جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے
''دنیا! تیرا حسن، یہی بد صورتی ہے''
دنیا اس کو گھورتی ہے
شور سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے
انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال
کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں کا جال
بام زماں پر پھینکا ہے
کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پر پیچ دھندلکوں میں
روحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز محلکوں میں
لے آیا ہے یوں بن پوچھے اپنے آپ
عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ
کون ہے یہ گستاخ
تاخ تڑاخ!
نظم
منٹو
مجید امجد