تمام ذی روح گرمیوں سے تڑپ رہے تھے
برس رہا تھا عجیب تشنہ لبی کا موسم
کسی نے رکھا قریب میرے
گلاس لبریز پانیوں سے
کہ تو بجھا لے پیاس اپنی
بجھانے پیاس اک نحیف کوا قریب آیا
گلاس پر چونچ اس نے ماری
تھا کانچ نازک
بکھر گیا ٹوٹ کر
نہ میں پی سکا نہ وہ پی سکا
ہے جس کا آج تک ملال دل کو