وہ جا چکا ہے ہمیں نے اسے نکالا ہے
یہ کیا ہوا کہ اک اک چیز اٹھ گئی اس کی
وہ ایک کونے میں رہتا تھا پر گیا جب سے
ہر ایک کونے میں رہتا دکھائی دیتا ہے
چمک رہی ہیں در و بام اس کی تحریریں
ٹہل رہی ہیں صدائیں یہاں وہاں اس کی
کہیں پہ نقش ہے اس کی نگاہ کا پرتو
کھدی ہوئی ہے کہیں اس کے پاؤں کی آہٹ
بسا ہوا ہے وہ دیوار و در کے سینے میں
بکھر چکا ہے یہاں کے ہر ایک ذرے میں
عجیب طرح سے آباد ہے یہ ویرانی
گلا دباتا ہے آسیب دم الٹتا ہے
یہ واہمہ ہے
یہی آگہی تو آ جائے
خدا نہیں نہ سہی آدمی تو آ جائے
مکان خالی ہے کب سے کوئی تو آ جائے
نظم
مکان خالی ہے
عزیز قیسی