میں آہیں بھر نہیں سکتا کہ نغمے گا نہیں سکتا
سکوں لیکن مرے دل کو میسر آ نہیں سکتا
کوئی نغمے تو کیا اب مجھ سے میرا ساز بھی لے لے
جو گانا چاہتا ہوں آہ وہ میں گا نہیں سکتا
متاع سوز و ساز زندگی پیمانہ و بربط
میں خود کو ان کھلونوں سے بھی اب بہلا نہیں سکتا
وہ بادل سر پہ چھائے ہیں کہ سر سے ہٹ نہیں سکتے
ملا ہے درد وہ دل کو کہ دل سے جا نہیں سکتا
ہوس کاری ہے جرم خودکشی میری شریعت میں
یہ حد آخری ہے میں یہاں تک جا نہیں سکتا
نہ طوفاں روک سکتے ہیں نہ آندھی روک سکتی ہے
مگر پھر بھی میں اس قصر حسیں تک جا نہیں سکتا
وہ مجھ کو چاہتی ہے اور مجھ تک آ نہیں سکتی
میں اس کو پوجتا ہوں اور اس کو پا نہیں سکتا
یہ مجبوری سی مجبوری یہ لاچاری سی لاچاری
کہ اس کے گیت بھی دل کھول کر میں گا نہیں سکتا
زباں پر بے خودی میں نام اس کا آ ہی جاتا ہے
اگر پوچھے کوئی یہ کون ہے بتلا نہیں سکتا
کہاں تک قصۂ آلام فرقت مختصر یہ ہے
یہاں وہ آ نہیں سکتی وہاں میں جا نہیں سکتا
حدیں وہ کھینچ رکھی ہیں حرم کے پاسبانوں نے
کہ بن مجرم بنے پیغام بھی پہنچا نہیں سکتا
نظم
مجبوریاں
اسرار الحق مجاز