EN हिंदी
میں زندہ ہوں | شیح شیری
main zinda hun

نظم

میں زندہ ہوں

سعید نقوی

;

میں سنتا ہوں سو زندہ ہوں
میں سونگھوں ہوں سو زندہ ہوں

اور لمس بھی زندہ ہے میرا
حیرانی اب تک باقی ہے

ہے میری بصیرت اب بھی جواں
اور چکھنے سے پرہیز کہاں

پر سوچنا مجھ کو دوبھر ہے
کہ سوچ کی راہیں مشکل ہیں

جو سوچتے ہیں کب جیتے ہیں
یا زہر کا پیالہ پیتے ہیں

یا صدمے سے مر جاتے ہیں
میں زندہ رہنا چاہتا ہوں

تو ریت میں دے کر سر اپنا
میں سنتا ہوں میں سونگھتا ہوں

اک لمس بصیرت باقی ہے
میں سنتا ہوں میں سونگھتا ہوں

میں زندہ ہوں میں زندہ ہوں
مجھ کو نہیں جینے کی پروا

میں زندہ رہنا چاہتا ہوں