میں یہ چاہتا ہوں سمندر کے ساحل پہ
بھیگی ہوئی ریت پر گال رکھے
چند لمحے
اسی طرح لیٹا رہوں
مگر وقت کی بھیڑ میں
مرے پاس اپنے لیے
چند لمحے کہاں
ہواؤں کے اس شور میں
میرے گریبان کی دھجیاں
اب کہاں
سمندر کی آغوش میں اتنی لہریں ہیں
ایک بھی لہر ایسی نہیں
جو لے جائے مجھ کو بہا کر
اک ایسے جزیرے کی جانب
جہاں کوئی رہتا نہ ہو
جہاں پانیوں میں مری استھیاں
ہوا میں
مرے نام کا کوئی سایہ نہ ہو
نظم
میں یہ چاہتا ہوں
مصحف اقبال توصیفی