EN हिंदी
میں، وہ اور رات | شیح شیری
main, wo aur raat

نظم

میں، وہ اور رات

منیر نیازی

;

کمرے میں خاموشی ہے اور باہر رات بہت کالی ہے
اونچے اونچے پیڑوں پر سیاہی نے چھاؤنی ڈالی ہے

تیز ہوا کہتی ہے پل میں برکھا آنے والی ہے
وہ سولہ سنگار کیے اپنی ہی سوچ میں کھوئی ہوئی ہے

سانسوں میں وہ گہرا پن ہے جیسے بے سدھ سوئی ہوئی ہے
دل میں سو ارمان ہیں لیکن میری سمت نگاہ نہیں ہے

یوں بیٹھی ہے جیسے اس کے دل میں کسی کی چاہ نہیں ہے