میں اسے روک نہ پایا
وہ مجھے چھوڑ گیا
جھڑتی سانسو کا اسے میں نے حوالہ بھی دیا
سرد ہوتی ہوئی نبضیں بھی اسے پکڑائیں
اس نے خاک ہوتے ہوئے خواہشیں میری دیکھیں
میرے خوابوں کا نگر لٹتے ہوئے بھی دیکھا
میری آنکھوں کے برستے ہوئے بادل دیکھے
میرے گالوں پہ چمکتے ہوئے اشکوں کے ستارے دیکھے
خشک ہوتے ہوئے ہونٹوں کو تڑپتا دیکھا
جلتی بجھتی ہوئی آہوں نے دہائی بھی دی
میں نے سو طرح سے چاہا کہ اسے روکوں
مگر
میں اسے روک نہ پایا
وہ مجھے چھوڑ گیا
نظم
میں اسے روک نہ پایا
محسن آفتاب کیلاپوری