میں تمہارے لیے ٹھہروں گا کہ شاید آؤ
اور جب دونوں پہر ملتے ہوں
ہم بھی آپس میں ملیں
جیسے اک روز ملا کرتے تھے
دن کے ہنگامے بجھے جاتے ہیں
سرد ہونے لگی ڈھلتی ہوئی شام
کشتیاں آ کے کنارے سے لگیں
جھیل لیٹی ہوئی محو آرام
پیڑ دن بھر کی تھکن سے بوجھل
قرب سرما کی ہوا سست خرام
دل مرا بارہا آیا ہے یہاں
چل کے اس رستے سے جو اون کے گولے کی طرح
میرے قدموں میں کھلا جاتا تھا
پھر مخل ہوتے ہوئے پتوں کی سرگوشی میں
ایک آواز نے رہ رہ کے بلایا تھا مجھے
وقت کا ہاتھ ٹہوکے سے دیے جاتا ہے
یوں ہی چلتے رہو پیچھے کی طرف مت دیکھو
رات آ جائے گی سو جاؤگے
اور جو گونج اٹھا کرتی ہے
دور ویرانوں میں کھو جائے گی
نظم
میں تمہارے لیے ٹھہروں گا
منیب الرحمن