EN हिंदी
میں | شیح شیری
main

نظم

میں

شبنم عشائی

;

اور تنہائی
سو رہے تھے

تمہارا خط آیا
ایک بھاری پاؤں

تنہائی کے سینے پر پڑا
چیخ پڑی اور لپٹ گئی مجھ سے

اس کی باہوں کی
قید میں

تمہارا خط پڑھا
پھر پڑھا

بار بار پڑھا
دل دھڑکا

وہ دیکھتی
تو ڈر جاتی

من میں شور سا اٹھا
وہ سنتی تو

مر جاتی
میں نے

اس کا چہرہ تکیے سے چھپا لیا
اس کی آنکھ کھلی خفا ہوئی

اور چلی گئی
صبح ہوئی

تو
بستر پر موجود تھی

میرے بغیر
کدھر جائے گی

کس کے یہاں جائے گی
تنہائی