EN हिंदी
میں رات حوا | شیح شیری
main raat hawwa

نظم

میں رات حوا

سلیم فگار

;

تم سے صرف ایک بار جنمی گئی ہوں
مگر تم تو آج تک

مجھ سے جنم لے رہے ہو
پھر میں محض اک سایا بن کر کیوں رہ گئی

وجود کیوں نہیں بنی
میرا پڑاؤ ہمیشہ

تمہارے انگوٹھے کے نیچے کیوں رکھا گیا ہے
میں تمہارے نام کی سل

اپنے بدن سے ہٹا کر
کھلی ہوا میں منہ بھر کر سانس لینا چاہتی ہوں

باپ بھائی شوہر اور بیٹے کے گھر کے علاوہ
میرا اپنا وطن بھی تو ہونا چاہیے

قیدی آنکھوں میں التجا کے پھول لیے
اجازتوں کے راہ تکتے تکتے پنکھڑیاں سوکھ کر

میری روح میں کانٹوں کی طرح چھینے لگی ہیں
خدارا میری آنکھوں کو زمین سے اتنا کس کر نہ باندھو

کہ میں آسمان کے رنگ دیکھا چاہتی ہوں
اور تمہاری آنکھوں میں

سلگتی ہوئی اندھی انا کی چنگاریوں کو
اپنی روپہلی محبتوں کی پھوار سے سرد کرنا چاہتی ہوں

پیروں سے اٹھ کر
میرے دل میں تمہارے ساتھ چلنے کی خواہش ہے

اور تم مجھے کئی رشتوں کی طنابوں میں جکڑ کر بھی
میری اڑان سے خوف زدہ ہو

یہ جان کر بھی
کہ اگر پرندوں کے پر کاٹ دیئے جائیں

تو پھر ان کے لیے پنجروں کی ضرورت باقی نہیں رہتی
منتوں کے درد کرتے کرتے

میری زبانوں کا گوشت گلنے لگا ہے
چلو حکم نہ سہی کم از کم

مجھے اپنی بات کرنے کی تو آزادی ہو
تمہاری کہنہ روایات کی بیڑیاں

پنڈلیوں کا گوشت کاٹ کر
اب میری ہڈیاں چبانا چاہتی ہیں

میں منہ کے بل گری یا معذور ہوئی
تو احتجاجاً بانجھ ہو جاؤں گی

اور اگر میں بانجھ ہوئی تو اپنے جنم کے لئے
آئندہ صدی کے کس کی کھو میں اترو گے