میں کتنے برسوں سے روز اپنے انا کی ایک پرت
چھیلتا ہوں
لہو لہو ان ہزار پرتوں کی تہہ میں پتھر ہوں
جانتا ہوں
یہ کہکشائیں یہ کائناتیں یہ روشنی کے سیاہ رستے
گزر کے تیری تلاش میں ہیں
کہ ہو نہ ہو تم وہاں کہیں میری منتظر ہو
مجھے یقیں ہے کہ تم میری بات سن رہی ہو
مگر نہیں ہو، کہ یہ جو تم ہو، یہ تم نہیں ہو
مری انا کا کوئی نگر ہو
کہ جس کے روشن سیاہ کوچوں میں
سر کٹے اجنبی بھرے ہیں
میں روح کے ریشمی لبادے ہٹا کے خود سے ملوں گا لیکن
مجھے خبر ہے کہ تم وہاں بھی نہیں ملو گی
کہ تم پرستش کی آرزو کا کوئی بھنور ہو
کوئی خداوند لب ملے تو
کہ اپنی بنجر ادا کے مندر میں مورتی کی طرح کھڑی ہو
ہزار صدیوں سے راہ تک تک کے جم گئی ہو
نظم
نظم
مبارک حیدر