میں کسی کونے میں خائف سا کھڑا ہوں
اور چھپ کر دیکھتا ہوں
ان گنت سایوں کی بھیڑ
افراتفری میں ہر اک سو
اور کرتا ہوں تصور
قید ہیں سینے میں اک اک سائے کے
بس مشینی دھڑکنیں
ذہن ہیں بیمار ان کے
قرض ہے احسان ہے ہر سانس ان کی
کھوکھلی ان کی نگاہیں دیکھتی ہیں
پر بنا بینائی کے
مردہ ہیں احساس ان کے
ایک نازک ننھا ہاتھ
میری اک انگلی پکڑ کر
مجھ کو واپس کھینچتا ہے
اس بھیانک خواب سے
مطمئن کرتی ہے
اک معصوم ننھی مسکراہٹ
زندگی زندہ ہے اب بھی
نظم
میں کسی کونے میں
سبودھ لال ساقی