EN हिंदी
میں خود سے مایوس نہیں ہوں | شیح شیری
main KHud se mayus nahin hun

نظم

میں خود سے مایوس نہیں ہوں

سلیمان اریب

;

میں خود سے مایوس نہیں ہوں
انساں سے مایوس ہوں تھوڑا

دھرتی پر آنے سے پہلے
وہ اور میں ساتھ رہا کرتے تھے

جنت میں
لیکن اس کو صدیاں بیتیں

اب اس سے میرا کیا رشتہ
ویسے وہ بھی مجھ جیسا ہے

میری طرح کھاتا پیتا چلتا پھرتا ہے
ہم دونوں ہم شکل ہیں اتنے

کچھ بھی کرے وہ
چاند پہ جائے دھرتی پر

جنگ کرے اور خون بہائے
آنچ مرے دامن پر آئے

ہم دونوں ہم شکل ہیں لیکن
کیا میں اپنی ماں بہنوں کو

چوراہے پر ننگا کر سکتا ہوں
وہ کرتا ہے

وہ پستانیں جن سے میں نے دودھ پیا
بلوان بنا ہوں

جن پر میں نے شعر کہے
تصویریں بنائیں

کیا میں ان کو کاٹ کے
کتوں کو کھلوا سکتا ہوں

کہتے ہیں کھلوایا اس نے
کیا میں نسوانی پیکر کو

جو میرا موضوع سخن ہے
پھول سے کومل

چاند سے شیتل
کی بوتل

جو میری بیوی کا بدن ہے اس کو
ٹکڑے ٹکڑے کر سکتا ہوں

اس نے کیا ہے
کیا میں اپنی بیٹی سے منہ کالا کر کے

اپنے بھائی بندوں ہم جنسوں کو
بڈھوں جوانوں معصوموں کو

زندہ جلا کر
پھانسی کے تختے پہ چڑھا کر

ان کے لہو کا تلک لگا کر
مونچھ پہ تاؤ دے سکتا ہوں

اس نے دیا ہے
میں خود سے مایوس نہیں ہوں

انساں سے مایوس ہوں تھوڑا
آج ہی سارے اخباروں میں خبر چھپی ہے

اس دھرتی کے اک حصے گجرات میں اس نے
میرے منہ پر تھوک دیا ہے