EN हिंदी
میں کب سے بے خال و خط پڑا ہوں | شیح شیری
main kab se be-Khaal-o-KHat paDa hun

نظم

میں کب سے بے خال و خط پڑا ہوں

قاسم یعقوب

;

کہاں ہیں آنکھیں
میں جن میں تیرہ شبی کا تریاق

آسماں پر کھلے ستاروں میں ڈھونڈتا تھا
میں دیکھتا تھا

جو حد ادراک میں نہیں تھا
جو دور ہو کر بھی میرے معروض میں کہیں تھا

میں اپنی پوروں سے پورا چہرہ ٹٹول کے خود سے پوچھتا ہوں
کہاں ہیں ہونٹوں کے سرخ کونے

کسی کے رخسار کی اماوس کی رات میں جو
ستارہ بن کے طلوع ہوتے

جو مسکراتے، تو پھول جھڑتے
جو حرف دو حرف اک کہانی کا ہار بنتے

جو منکشف ہو کے روشنی کا لباس ہوتے
کہاں ہے کانوں کی حیرتی کا شراب خانہ

جہاں پہ آواز
بہتے چشموں کی تازگی کا سراغ لے کر

مری سماعت کا رزق بنتی
میں کس سے پوچھوں

وہ جس سے کھلتے تھے
بارشوں میں مہکتی مٹی کی خوشبووں کے

تمام مفہوم ،اب کہاں ہے
میں کب سے بے خال و خط پڑا ہوں

مرا کوئی سایہ ہی نہیں ہے
سب آئینے جھوٹ بولتے ہیں

کسی کے چہرے کو میرا چہرہ دکھا رہے ہیں