EN हिंदी
میں جینا چاہتا ہوں مگر | شیح شیری
main jina chahta hun magar

نظم

میں جینا چاہتا ہوں مگر

یوسف تقی

;

میں جینا چاہتا ہوں
مگر کیڑے مکوڑوں اور بے مایہ مخلوقات کی طرح

رینگ رینگ کر نہیں!
میں جینا چاہتا ہوں

مگر اپنے باطن میں
کلبلاتے شر پر

ظاہری اخلاق کی ردا
ڈال کر نہیں

میں جینا چاہتا ہوں
مگر ایسے نہیں

کہ میرے وجود کے اندر
بغض ہوس اور ریا کاری کی بارودی سرنگیں

بچھی ہوں
اور ہر لحظہ ہر پل

یہ خوف
کہ کب کوئی

ریموٹ کنٹرول سے
انا اور غیرت احساس اور جذبے

کی خوبصورت عمارتوں کو
ڈھا دے

میں جینا چاہتا ہوں
اپنے پورے وجود کی ساری اکائیوں کے ساتھ

اور مجھے یہ احساس نہ ستائے
کہ یہ زندگی

کسی کی بھیک میں دی ہوئی سانسوں کا حصہ ہے
میں جینا چاہتا ہوں

ایک ایسی دنیا میں
جہاں ملک گیری کے جنون

اتنے شدید نہ ہوں کہ
ایٹمی توانائی سے ممیز آلات فضا کو مسموم کر دیں

انسان اس کی ہزاروں برسوں کی پرانی قدریں
ایسی پامال ہو جائیں جیسے حقیر ذرے

مگر میں جانتا ہوں
یہ سب ممکن نہیں

تو میں مرنا چاہوں گا
پر ایسی موت نہیں

کہ میری لاش کو
قبرستان تک پہنچانے میں

تکلف مجبوری اور زبردستی کا شائبہ ہو
یا دعا میں ہلتے ہوئے لب

اور اٹھائے ہوئے ہاتھ
مجبوراً و رسماً ہوں

ہاں ایسی موت جو کسی کی آنکھوں میں
ٹھہرے ہوئے چند قطرے

خاموشی سے میرے کفن میں
جذب ہو جائیں

اور بس!!