EN हिंदी
میں جب خود سے بچھڑتی ہوں | شیح شیری
main jab KHud se bichhaDti hun

نظم

میں جب خود سے بچھڑتی ہوں

بشریٰ اعجاز

;

مری پلکوں پہ تابندہ
تری آنکھوں کے آنسو

مجھے تاریک راتوں میں
نئے رستے سجھاتے ہیں

وجودی واہموں کی سر زمینوں پر
میں جب خود سے بچھڑتی ہوں

چمکتی ریت کے ذروں کی صورت
جب بکھرتی ہوں

مجھے وہ اپنے نم سے جوڑ دیتے ہیں
مجھے خود سے ملاتے ہیں

میں جب دن کی بہت لمبی مسافت میں
اداسی کی تھکن سے چور ہوتی ہوں

اکیلے پن کی وحشت میں
بہت مجبور ہوتی ہوں

تو گہری ہانپتی شاموں کی دہلیزوں سے
وہ اکثر مجھے دھیرے سے

ماں! کہہ کر بلاتے ہیں
تری آنکھوں کے آنسو

مجھے کیسے انوکھے سلسلوں سے
جا ملاتے ہیں!!