جانتے ہو میں ہوں کیا میں ہوں ویشیا
پتا ہے میں نے ہے کیا کیا کیا
میں ناچتی ہوں کوٹھوں پر خوش ہوتی ہوں بس نوٹوں پر
ہر رات ہر رات میں اپنا جسم بیچتی ہوں
اتنا درد میں بس پیسوں کے لئے تو سہتی ہوں
میں لوگوں کی راتیں رنگین کرتی ہوں
ہر رات یہ اپرادھ سنگین کرتی ہوں
میرا نام عام میں لینے نہیں
نوٹ کے علاوہ میری زندگی کا کوئی نایک نہیں
زندگی میں میرا نہ ہے استیو نہ کوئی ایمان
سماج کے لئے تو میں ہوں ہی نہیں انسان
اگر ہے تو بس ہے ایک پہچان
ہوں ایک کوٹھے والی کرتی ہوں اپنا ہی جسم نیلام
ہر رات میری ایک نئے گراہک کے ساتھ ہوتی ہے
ہر رات میری آتما اپنی پہچان کھوتی ہے
میری ماں کا بھی تو یہی کام تھا نہیں جانتی میرے پتا کا کیا نام تھا
جان کر بھی کیا کر لیتی وہ بھی ایک ویشیا تھی
کام ان کا لوگوں کو سکھ دینا تھا چنتا نہیں
وراثت میں ان سے بس یہی ایک کام ملا
جس کے کارن ہی شاید مجھے جیون میں کچھ نہ ملا
نہیں نہیں گلتی ان کی نہیں انہوں نے تو پڑھانا چاہا تھا
پر کیا کریں مالکن کو یہ بالکل ناگوار تھا
نہ جائے دیا مجھے اس نرک سے باہر نہ بننے دی کوئی پہچان
ان کے دباؤ میں ہی تو مجھے کھونا پڑا میرا ایمان
اب لوگوں کو بھی کیا دوش دوں جو مجھ پر تھوک کر جاتے ہیں
نہیں جانتے وہ میرا سچ بس کچھ بھی کہہ جاتے ہیں
دکھ تو خوب ہوتا ہے پر اب عادت سی ہو گئی ہے
سوچتی ہوں کبھی کیا میری یہ عادت واقعی سہی ہے
کیا مجھے جینے کا کوئی موکا ملے گا
کیا میرے جیون میں بھی پیار کا پھول کھلے گا
ہم سفر نہیں بس ایک ہم درد ہی چاہیے
پہچان نہیں تھوڑا سا بس پیار ہی چاہیے
ایمان نہیں تھوڑی سی بس عزت ہی چاہیے
ارمان ہے بس ایک کوئی ویشیا نہیں نہیں ویشنوی کر بلائے
پیسے دیکھ کر نہیں پیار دے کر گلے سے لگائے
کسی کے گھر ٹوٹنے کا نہیں جڑنے کا کارن بننا چاہتی ہوں
بس ایک بار کسی کے دکھ کا نیوارن بننا چاہتی ہوں
کسی کی بیوی نہ سہی بہن بننا چاہتی ہوں
ہر بار کی طرح ویشیا نہیں ایک انسان بننا چاہتی ہوں
جانتی ہوں ایسے سپنے میرے لئے نہیں ہیں
پر کیا کروں سپنے میرے بس میں نہیں ہیں
اس لیے ہر بار یہ سپنا آنکھ سے بوند کے ساتھ بہا دیتی ہوں
پھر کمرے میں جا کر کسی گراہک کو وہ سکھ دیتی ہوں
بس یہی میرے جیون کا سار ہے
ایک ہی میرا کام اور یہ کام ہی میرا سنسار ہے
نظم
میں ہوں کیا ویشیا
انکتا گرگ