مجھ سے اچھا نہیں
کچھ برا بھی نہیں
ٹھیک مجھ سا بھی شاید نہیں
مجھ کو محسوس ہوتا ہے کچھ مختلف بھی نہیں
وہ جو اک اجنبی آج آیا ہے اس شہر میں
عین ممکن ہے پیدا یہیں وہ ہوا ہو
جواں ہو گیا تو کسی دوسرے دیس میں جا بسا
ناروا موسموں کے تھپیڑوں کی یلغار میں
کچھ فسردہ و مغموم بکھرا ہوا
لوٹ آیا ہو اک روز اپنے پرانے اسی شہر میں
یہ بھی ممکن ہے وہ
ایک دشمن قبیلے کا کوئی سفیر عداوت یا دہشت ہو یا پھر کوئی
ہجرتوں کے تسلسل کا واماندہ رہ رو
گھڑی دو گھڑی کے لیے میرے اس شہر میں رک گیا ہو
وہ اک بے گھری سے کسی دوسری بے گھری میں یہاں آ گیا ہو
وہ مفرور قاتل ہو ممکن ہے اس شہر کو
کنج محفوظ شاید سمجھتا ہو یہ سوچتا ہو
گزر جائیں گے عافیت سے شب و روز باقی کے اس کے یہاں
میں تو سر سبز و شاداب برسوں جیا لہلہایا اسی خاک پر
جسم اپنا تھا میں
ذہن اپنا تھا میں
خود سے مقدور کے دائرے میں شناسا بھی تھا
حادثہ مجھ پہ گزرا عجب یہ کہ میں
آج اپنی ہی پہچان کے کیسے آزار میں گھر گیا
اب یہاں کون ہوں
نام میرا ہے کیا
کس کا ہم دم ہوں میں
کس کا ہم زاد ہوں
کون میرا ہے ہم زاد چاروں طرف سے امڈتی ہوئی بھیڑ میں
باد مسموم میں
جسم و جاں کو جھلستی ہوئی ریگ پیکار میں گھر گیا
میں مکافات کے سیل اسرار میں گھر گیا
نظم
میں، ایک اور میں
بلراج کومل