EN हिंदी
میں | شیح شیری
main

نظم

میں

اعجاز فاروقی

;

میرا جسم
یہ نیلا گہرا پھیلتا پانی

اس کی لہر لہر سے ابھرا
میرے لہو کا چاند

اس کے اندر پھوٹے
تیرے جسم سے نرم کنول

اس کے افق سے نکلا چمکا
میرا سوچ کا سورج

کون کہے میں خاکی ہوں
مٹی تو بوجھل

بیٹھ گئی تو بیٹھ گئی
میں پانی کا سنگیت

میں بہتا دریا
لہو کا چاند کنول کا جھولا سوچ کا سورج

کیسے کیسے بہتا جائے