EN हिंदी
میں! | شیح شیری
main!

نظم

میں!

عزیز قیسی

;

میں جیتا ہوں آئینوں میں
آئینے غم خانے ہیں

میرا عکس بنا لیتے ہیں اپنی اپنی مرضی سے
میں جیتا ہوں کچھ سینوں میں

سینے آئینہ خانے ہیں
میرا نقش بنا لیتے ہیں اپنی اپنی مرضی سے

میں جیتا ہوں مٹی پر
مٹی جس سے گھر بنتے ہیں

جس سے قبریں بنتی ہیں
جس کا ذرہ ذرہ اوروں کا ہے

ان کا جن میں میں ہوں
جو مجھ میں ہیں

عکس کہا کرتے ہیں دیکھو تم ایسے ہو
نقش کہا کرتے ہیں ایسے بن سکتے ہو

ذرے کہتے ہیں تم ایسے بن جاؤ گے
تم بتلا سکتے ہو آخر میں کیا ہوں

تم کیا بتلاؤ گے
تم خود آئینہ خانہ ہو

غم خانہ ہو
گھر ہو

قبر ہو
تم خود ''میں ''ہو