میں وہ جھوٹا ہوں
کہ اپنی شاعری میں آنسوؤں کا ذکر کرتا ہوں
مگر روتا نہیں
آسماں ٹوٹے
زمیں کانپے
خدائی مر مٹے
مجھ کو دکھ ہوتا ہے
میں وہ پتھر ہوں کہ جس میں کوئی چنگاری نہیں
وہ پیمبر ہوں کہ جس کے دل میں بیداری نہیں
تم مجھے اتنی حقارت سے نہ دیکھو
عین ممکن ہے کہ تم میرا ہیولیٰ دیکھ کر
غور سے پہچان کر
اپنی آنکھیں پھوڑ لو
اور میں خالی نگاہوں سے تمہیں تکتا رہوں
آگہی مجھ کو پیاری تھی
مگر اس کا مآل
زندگی بھر کا وبال
اب لیے پھرتا ہوں اپنے ذہن میں صدیوں کا بوجھ
کچھ اضافہ اس میں تم کر دو
کہ شاید کوئی تلخی ایسی باقی رہ گئی ہو
جس کو میں نے آج تک چکھا نہیں

نظم
میں اور تو
شہزاد احمد