اک پڑوسی کے گھر میں آگ لگی
اور دھواں بھر گیا مرے گھر میں
ایک ہمسائے نے جو کی فریاد
گونج اٹھا درد قلب مضطر میں
میرے دل کے پڑوس میں جیسے
اب کروڑوں دلوں کا مسکن ہے
میں اکیلا ہوں یا کروڑوں ہوں
یہ جہاں میرے گھر کا آنگن ہے
مسکراتا ہے کائنات کا غم
میری آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں
دیکھتی ہیں کروڑوں آنکھوں میں
اک شب تار کی سحر آنکھیں
میرے دل کی وسیع دنیا میں
درد اپنا بھی ہے پرایا بھی
''میں'' کو جب ''ہم'' بنا لیا میں نے
خود کو کھویا بھی خود کو پایا بھی
نظم
میں اور ہم
پرویز شاہدی